بیسویں صدی کے اواخر میں اردو کے تعلق سے خود اہل زبان میں کافی مایوسی پیدا ہورہی تھی، کیوں کہ اسے غیرواجبی طور پر صرف مسلمانوں سے جوڑتے ہوئے حکومتوں نے معاندانہ رویہ اختیار کررکھا تھا۔ ویسے بھارت میں اردو سے سرکاری سطح پر سوتیلا سلوک تو اب بھی ہے، لیکن گزشتہ دو دہوں میں اہل اردو کے ساتھ ساتھ غیرمتوقع طور پر غیروں کی طرف سے اس زبان کی آبیاری ہوئی جو بڑی خوشی کی بات ہے۔ حیدرآباد (دکن) میں اہل اردو کی طرف سے کئی اداروں، تنظیموں بلکہ نجی سطح پر مختلف افراد نے بھی اس زبان کو بچانے کی حتی المقدور کوششیں کی ہیں اور کررہے ہیں۔ تاہم جب تک کسی زبان کو روزگار سے نہیں جوڑا جاتا، اس کی ترقی و ترویج شاید ہی ممکن ہے۔
ہر کسی کو اپنی مادری زبان پر فخر ہوتا ہے، مجھے بھی ہے۔ میں نے بارہویں تک اردو ذریعہ تعلیم سے پڑھائی کی اور اس کے بعد انگریزی میڈیم کو اختیار کیا۔ دنیا کے ماہرین تعلیم نے کہا ہے کہ بنیادی سطح پر ٹھوس تعلیم صرف اور صرف مادری زبان میں ہی ہوسکتی ہے ۔ ترقی یافتہ اقوام تو اپنی مکمل تعلیم مادری زبانوں میں حاصل کرتے ہیں، جیسے امریکا، رشیا، چائنا، فرانس، وغیرہ۔ ہندوستان واحد ملک ہے جس کے شہریوں کو مادری زبان میں حصول تعلیم اور بقیہ دنیا والوں سے مسابقت کے لیے انگریزی میڈیم کے ذریعے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی دوہری مشقت کرنی پڑتی ہے۔ اردو والوں کے لیے مزید مشکل رہتی ہے کیوں کہ ملک میں سوائے کشمیر کہیں بھی اردو پہلی سرکاری زبان نہیں ہے۔ اس لیے بقیہ پورے ملک میں اردو والوں کے لیے خود کو روزگار سے جوڑنے والی تعلیم پانا بڑا کٹھن کام رہتا ہے۔ شاید یہی بڑی وجہ ہے کہ اہل اردو نے اپنی مادری زبان کو تعلیم کے معاملے میں ترک کردیا ۔ مانو کہ اردو زبان بے یار و مددگار ہوگئی۔
ان حالات میں اردو کو ”پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے“ کے مصداق ای ٹی وی اردو ، ڈی ڈی اردو، نیوز 18 اردو، انڈیا ہیرالڈ جیسے اداروں نے دوبارہ ابھرنے میں بلاشبہ مدد کی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں بھی اس پلیٹ فارم کا حصہ ہوں، جس کے ذریعے دنیا بھر کے شعبوں کی باتیں اہل اردو تک پہنچائی جاسکتی ہیں۔ میں اس کے لیے انڈیا ہیرالڈ اور اس کے پیشرو اداروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ ادارے راست اور بالواسطہ اردو کے فروغ کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ چنانچہ اہل اردو کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اپنی زبان کو پست ہونے نہ دیں۔ اس موقع پر اہل اردو سے ایک بات کہنا چاہوں گا کہ دنیوی ترقی کے لیے اپنی مادری زبان سے دوری اختیار کرنا ہرگز مناسب نہیں، کیوں کہ ایسا بالکل نہیں کہ مادری زبان میں اسکولی تعلیم حاصل کی جائے تو ہم دنیا سے مسابقت کے قابل نہیں ہوسکتے۔