انٹر کاسٹ ، بین مذاہب شادیاں

Jabri Irfan
تبدیلی مذہب کسی مخصوص خطہ یا ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ آفاقی عمل ہے جس کی تاریخ کتنے سو یا ہزار سال پرانی ہے قطعیت سے کچھ کہہ نہیں سکتے۔ میری ناقص رائے میں اس عمل کی دو بڑی وجوہات رہی ہیں یا ہوسکتی ہیں .... پہلی، شخصی دلچسپی، علم و تحقیق کے بعد آفاقی حقیقت کو سمجھنا؛ دوسری، مختلف کاسٹ، مذاہب والوں کا مشترک سماج میں میل جول کے ساتھ رہنا۔ تبدیلی مذہب پہلی وجہ کے سبب زیادہ تر آپ کو ترقی یافتہ یا بہتر تعلیم یافتہ بیرون برصغیر ہند حصوں میں دیکھنے کو ملے گا، جب کہ دوسری وجہ کے باعث تبدیلی مذہب، انٹر کاسٹ بین مذاہب شادیاں بالخصوص انڈیا میں دیکھنے میں آئیں گے۔
بھارت بعض حقائق کی بناءدنیا کا بالکلیہ منفرد اور خاص دیش ہے۔ آپ کو پورے کرہ ارض پر ایسا ملک نہیں ملے گا جو اتنی زیادہ آبادی، بولیاں، تہذیبیں، اتنے زیادہ مذاہب، رنگ و نسل، عادات و اطوار ہونے کے باوجود زائد از ستر سال سے متحد وفاقی مملکت ہے! تاہم، لٹریسی یعنی شرح خواندگی کے اعتبار سے ہندوستان کا منفی ریکارڈ ہے۔ اس بناءپر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں جو تبدیلی مذہب یا انٹرکاسٹ اور بین مذاہب شادیاں ہوتی ہیں وہ زیادہ تر علم و تحقیق کے بعد ہوتی ہیں۔ 
دراصل مرد اور عورت کا چاہے وہ کسی مذہب، فرقہ، ذات، زبان سے تعلق رکھتے ہوں ، سماج میں میل جول کے ساتھ رہنا یا ملازمت کرنا .... اُن میں ایک دوسرے سے اُنسیت پیدا کرنے کا بڑا سبب بنتا ہے، پھر چاہے دونوں فریق کنوارے ہوں، کوئی ایک یا دونوں پہلے سے شادی شدہ کیوں نہ ہوں، کچھ فرق نہیں پڑتا .... ہمیں عین ممکن ہے تبدیلی مذہب، انٹرکاسٹ یا بین مذاہب کورٹ میریج (اکثر و بیشتر) سننے یا دیکھنے کو ملیں گے۔
ایسا نہیں کہ تبدیلی مذہب صرف شادی کی خاطر ہوتا ہے۔ بالکل نہیں، میں نے جو مذکورہ بالا پہلی وجہ لکھی ہے، اُس میں زیادہ تر شادی کا مقصد نہیں ہوتا۔ کسی مذہب والے فرد نے دیگر مذہب کے بارے میں علم حاصل کیا اور تحقیق کی، پھر اُسے محسوس ہوا کہ اُس کے موجودہ دین سے تحقیق والا مذہب بہتر ہے تو وہ اُس قبول کرلیتا کرلیتی ہے؛ سَر مارماڈیوک پکتھال، محمد علی (کلے)، اے آر رحمن، کملا ثریا (کیرالا کی مشہور رائٹر مادھوی کٹی عرف کملا داس) جیسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔ اس کے برخلاف بھی آج کل زیادہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ البتہ اس معاملے میں زیادہ تر شادی یا دیگر سماجی مسائل وجہ بن رہے ہیں۔بہرحال وجوہات جاننا اور مناسب مداوا کرنا تمام متعلقہ گوشوں کی ذمہ داری ہے، لیکن ایک بات اچھی طرح ذہن نشین رکھیں کہ آپ کسی پر بھی نہ کوئی مذہب عقیدہ تھوپ سکتے ہیں، نہ سماجی بندھن مسلط کرسکتے ہیں۔ اس معاملے میں دنیا ہم کو آزادی دے یا نہ دے مگر خدا نے ہمیں پوری آزادی دے رکھی ہے اور اسی کے مطابق ہمارے ساتھ عمل ہوتا رہے گا!


Find Out More:

Related Articles: