چندریان 2 جو چاند پر رسائی کے لیے بھارت کا فخریہ غیرانسان بردار مشن ہے، اس کا بدقسمتی سے ہفتہ کی اولین ساعتوں میں چاند سے محض 2.1 کیلومیٹر کی دوری پر رہتے ہوئے بنگلورو میں قائم انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اِسرو) کے ساتھ رابطہ منقطع ہوگیا۔ یوں ظاہر طور پر بھارتی مشن کامیاب نہ ہوا کیوں کہ اس کا ’وکرم‘ لینڈر سطح چاند پر پہنچ نہیں سکا، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ وہ آخری رابطے کے مطابق ’کراش‘ نہیں ہوا بلکہ چاند کے مدار میں ہی گھوم رہا ہے، اور اس کی کارکرد ہونے کی مدت اِسرو کے مطابق 7 سال ہے، یعنی دوبارہ رابطہ قائم ہونے پر اسے اپنی منزل مقصود پر پہنچایا جاسکتا ہے، اس لئے اسے فی الحال ’ناکام‘ مشن نہیں کہا جاسکتا۔ دنیا کے نامور خلائی تحقیقی ادارہ امریکہ کے ’ناسا‘ نے بھی یہی رائے کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ بھارتی سائنس دانوں سے متاثر ہونے کی بات بھی کہی ہے۔
اگر ’وکرم‘ لینڈر 7 ستمبر کو شیڈول کے مطابق چاند پر پہنچ جاتا تو یہ بھارتی خلائی تحقیق کی تاریخ میں بہت بڑا سنگ میل ثابت ہوتا، کیوں کہ اِسرو نے چاند کی سطح کے اس حصے میں سافٹ لینڈنگ کا منصوبہ بنا رکھا ہے جہاں ابھی تک دنیا نے رسائی حاصل نہیں کی ہے۔ گوکہ امریکہ نے خلائی تحقیق کی تاریخ کے اعتبار سے سال 1969 میں ہی انسان بردار مشن چاند کی سطح پر پہنچاتے ہوئے دنیا میں منفرد اعزاز حاصل کررکھا ہے، مگر قطب جنوبی پہ رسائی کا بھارتی منصوبہ اسے بھی انفرادیت دلا دیتا۔ بہرحال کے سیون چیئرمین اِسرو کے مطابق ان کی پوری ٹیم ’وکرم‘ لینڈر سے رابطہ دوبارہ قائم کرنے کی انتھک جدوجہد کررہی ہے اور ہوسکتا ہے تین یوم میں اِسرو کو اور چندریان 2 کو کامیابی مل جائے گی، جس کی بلحاظ جون 2019 مختص لاگت 978 کروڑ روپئے (تقریباً 141 ملین امریکی ڈالر) ہے۔
چندریان 2 جو 22 جولائی 2019 کو لانچنگ کے بعد 20 اگست کو چاند کے مدار میں پہنچ گیا تھا، اس کے بنیادی مقاصد میں سطح چاند پر سافٹ لینڈنگ کی قابلیت کا مظاہرہ پیش کرنا اور وہاں سطح پر روبوٹک روور (روبوٹ کے ذریعے نظر رکھنا) کو کارکرد رکھنا ہے۔ سائنسی مقاصد میں چاند کا جغرافیائی مطالعہ (ٹوپوگرافی)، علم معدنیات (منرالوجی)، عنصری بہتات (ایلیمنٹری ابنڈنس)، قمری طبق بالا (لونار ایگزاسفیئر)، اور ہائیڈراکسل اور آبی برف کے آثار کی کھوج کرنا شامل ہیں۔ آربیٹر (مدار میں گھومنے والا) قمری سطح کا نقشہ بنائے گا اور اس کے 3D نقشے تیار کرنے میں مدد کرے گا۔ مشن میں شامل ریڈار بھی سطح کا نقشہ بنانے کے ساتھ ساتھ قطب جنوبی خطہ میں آبی برف ، نیز سطح ٹھوس قمری مادہ یا خاک کی موٹائی کا جائزہ بھی لے گا۔
وزیراعظم نریندر مودی نے 22 جولائی کو اس مشن کے لانچ پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اسرو کے سائنس دانوں کو ساری قوم کی طرف سے مبارکباد دی تھی۔ شاید اسی کے تسلسل میں وزیراعظم 7 ستمبر کے تاریخی نظارہ کے لیے بہ نفس نفیس بنگلورو میں اسرو کے چندریان 2 کنٹرول سنٹر پہنچ گئے تھے۔ وہاں انھوں نے سائنس دانوں کو تاریخی موقع سے قبل مخاطب کیا اور ان کی تعریف و ستائش کی۔ تاہم، چند گھنٹوں بعد اچھی خبر نہیں آئی اور اس بار وزیراعظم کو قوم سے گزشتہ مرتبہ کی طرح تاریخی خطاب کا موقع نصیب نہیں ہوا۔ جیسے ہی چیئرمین اسرو سیون نے ’وکرم‘ لینڈر سے کنٹرول سنٹر کے ساتھ مواصلاتی رابطہ ٹوٹ جانے کا اعلان کیا، وہاں کا ماحول مغموم ہوگیا۔ مودی نے موقع کی مناسب سے مشن کے نتیجے پر جذبات سے مغلوب اسرو چیئرمین سیون کو نہایت گرمجوشی سے دلاسہ دیا اور حوصلہ بڑھایا، جو اگلی صبح ملک میں دلچسپ موضوع بن گیا اور زندگی کے متعدد گوشوں نے اس پر تبصرے کئے۔
بہرحال ناسا کے تبصرے کے مطابق بھارت اور اسرو نے سب کچھ نہیں کھویا ہے بلکہ ان کی اتنی کوشش بھی فخریہ ہے جس نے دنیا کو متاثر کیا ہے۔ خود بھارت میں سیاسی وابستگی سے قطع نظر سبھی نے اسرو کی جرت مندانہ مساعی کو سراہا ہے۔ اصل اپوزیشن کانگریس نے کہا کہ چندریان 2 مشن نے قطعی مقصد میں عارضی تعطل کے باوجود کئی سنگ میل عبور کئے ہیں۔ اسرو کے مطابق آربیٹر میں 7 سال تک کام کرنے کے لیے فیول موجود ہے اور وہ جلد ہی ’وکرم‘ کا پتہ چلالیں گے۔ دیکھئے کہ آگے آگے ہوتا ہے کیا؟