تلنگانہ کا دارالحکومت شہر حیدرآباد ان دنوں وبائی بیماریوں کی لپیٹ میں ہے، جن میں زیادہ تر امراض مچھروں کے سبب ہیں۔ سب سے پہلے یہ واضح کردوں کہ شہر ’بیماریوں کی لپیٹ میں ہے‘ سے مراد ایسا نہیں کہ چند دہے قبل کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے جب ہیضہ جیسے وبائی مرض سے شہریوں میں خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اور متعدد اموات پیش آئی تھیں۔ میری مراد اکیسویں صدیں کے جدید دور میں دارالحکومت تلنگانہ کی طبی اعتبار سے حالت پر تشویش ہے۔
پرانے شہر سے لے کر نئے شہر تک قابل لحاظ تعداد میں لوگ نت نئی تکالیف میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں۔ بچوں کا جلد متاثر ہوجانا عام طور پر قابل فہم رہتا ہے لیکن جوان اور اَدھیڑ عمر والے بھی یکے بعد دیگر بیمار پڑتے جارہے ہیں۔ مجموعی طور پر بچوں سے لے کر بوڑھوں تک اور مردوں سے لے کر خواتین تک تقریباً سبھی متاثر ہیں۔ کسی کو مچھر کے سبب ڈینگی لاحق ہوگیا ہے، کوئی شدید اعضاءشکنی میں مبتلا ہے، کوئی ہائی ٹمپریچر سے پریشان ہے، کسی کو دست و قئے کی شکایت ہوگئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب بدلتے موسم اور صاف صفائی کے ناقص انتظامات کے ساتھ ساتھ شہریوں کی لاپروائی کا نتیجہ ہے۔ موسم پر ظاہر ہے حکام کا کنٹرول نہیں ہوسکتا، اور شہریوں میں بیداری لانا حکومت ایک حد تک کرسکتی ہے، لیکن حکومت اپنے حیطہ اختیار کے مطابق بھرپور احتیاطی تدابیر اختیار کرسکتی ہے، صاف صفائی کے انتظامات کے معیار پر توجہ دے سکتی ہے۔ اس معاملے میں پانچ سال قبل کے حالات دیکھیں تو بلاشبہ بہتری آئی ہے لیکن حالیہ عرصے میں تن آسانی بھی دیکھنے میں آئی ہے، جو شہریوں کی صحت کو جوکھم میں ڈال رہی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کو جی ایچ ایم سی حکام کے ذریعے شہر کے موجودہ مضرت رساں طبی ماحول کو دور کرنے پر فوری توجہ دینا ضروری ہے۔
شہریوں کی بھی مساوی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اور اپنے ارکان خاندان کی صحت کو یقینی بنائیں، جس کے لیے ان کو موسمی تبدیلی کے اعتبار سے اپنا لائف اسٹائل بدلنا پڑے گا۔ اپنے گھروں اور دفاتر میں صاف صفائی پر خاص توجہ دینا پڑے گا۔ بیماروں کی عیادت کے وقت ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ غذا کے معاملے میں تو خاص احتیاط درکار ہے کیوں کہ لگ بھگ سارے طبی مسائل پیٹ سے جنم لیتے ہیں۔ ہر فیملی اپنے ارکان میں صحت کے بارے میں بیداری پیدا کرے تو شہر خودبخود بہتر ’صحت‘ کا حامل ہوجائے گا۔