کشمیر میں جمعہ کو آرمی نے کہا کہ اُس نے جاریہ امرناتھ یاترا میں تخریب کاری کے منصوبوں کو بے نقاب کیا ہے۔ آرمی نے اپنے دعوے کی تائید میں پاک آرمی لینڈمائن اور اسنائپر رائفل امرناتھ یاترا کی روٹ سے برآمد کرنے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ امرناتھ یاترا تو چند روزہ مذہبی سفر ہے جو عنقریب ختم ہوجائے گا لیکن کشمیر میں شاید ہی کوئی دن گزرتا ہے جب سکیورٹی فورسیس کو عسکریت پسندوں کا سامنا نہیں ہوتا اور کوئی انکاونٹر نہیں ہوتا نیز مختلف ٹھکانوں سے اسلحہ و گولہ بارود برآمد نہیں کئے جاتے۔
مجھے بار بار یہ خیال آتا ہے کہ ہماری سکیورٹی فورسیس کو داخلی علاقوں سے ہی ایسی چیزیں کیوں برآمد ہوتی ہیں؟ کیا یہ اندرون ملک تیار ہوتی ہیں یا بیرونی ذرائع سے ملک میں لائی جاتی ہیں۔ تازہ معاملے میں فوج کا دعویٰ ہے کہ پاک لینڈ مائن اور اسنائپر رائفل امرناتھ یاترا کی روٹ سے برآمد کئے گئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر سرحد پار سے پاک لینڈ مائن اور رائفل کس طرح کشمیر میں لائے گئے۔ سرحدوں پر چوکس فورسیس آخر کیا کررہی تھیں؟
فبروری میں پلوامہ کے سنگین خودکش حملے میں زائد از 40 سی آر پی ایف (سنٹرل ریزرو پولیس فورس) جوانوں کی ہلاکت پر مرکزی حکومت نے بہت واویلا کیا، یہاں تک کہ اس حملے کے لیے ذمہ دار پاکستان نشین جیش محمد کے خلاف کارروائی کے لیے بالاکوٹ پر فضائی حملے کئے۔ ہندوستان کو پڑوسی ملک کا جوابی حملہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ تاہم، کئی گوشوں کی جانب سے انٹلیجنس کی صریح ناکامی پر سوالات اٹھائے گئے لیکن مودی حکومت نے ملک میں انتخابی ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ناکامی کو بحث کا موضوع بننے سے کسی طرح روک لیا۔
میرا یہی ماننا ہے کہ بیرون ملک سے ہندوستان میں تخریب کاری کی کوئی بھی کوشش ہو، اس کے سدباب کی پہلی ذمہ داری انٹلیجنس اور سکیورٹی فورسیس پر عائد ہوتی ہے۔ امرناتھ یاترا کے راستے میں پاکستانی اسلحہ کو برآمد کرنا ہماری فوج کا کارنامہ نہیں بلکہ انڈین انٹلیجنس اور سکیورٹی فورسیس کے لیے شرم کی بات ہے۔ اس لیے ہماری فورسیس کو دراندازی ہونے کے بعد دراندازوں کی سرکوبی پر توجہ دینے کے بجائے بری، بحری، فضائی تمام سرحدوں کی حفاظت کے اپنے معیار کو بلند کرنا چاہئے۔