این پی آر سے اتنی محبت کیوں ہوگئی؟
مودی ۔ شاہ حکومت اور بالخصوص وزیر داخلہ کو پہلی بار کانگریس سے جڑے ایک معاملے سے بے حد دلچسپی دیکھ کر نہ صرف میری حیرت بڑھتی جارہی ہے بلکہ مرکز کے مستقبل کے عزائم کے تعلق سے میرے شکوک و شبہات میں اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔ یہ معاملہ ہے این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر) یا قومی آبادی رجسٹر کا۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے، جب امیت شاہ نے سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون) پر ایک انچ تک پیچھے نہ ہٹنے کی بات کہی تھی۔ میں اچھی طرح واضح کردینا چاہتا ہوں کہ سی اے اے سے این پی آر اور پھر مجوزہ ملک گیر این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) یعنی قومی رجسٹر شہریان کا تانا بانا ملتا ہے۔
دو روز قبل امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں بیان دیتے ہوئے قوم بالخصوص مسلمانوں کو یقین دلایا کہ یکم اپریل تا 30 ستمبر 2020 طے شدہ این پی آر سے انھیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ کسی کو کوئی دستاویز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کسی کو بھی ’ڈی‘ یا ’ڈاوٹفل‘ یا ’مشکوک‘ کے زمرہ میں نہیں ڈالا جائے گا۔ امیت شاہ چند ہفتے قبل دہلی الیکشن میں مرکز کی برسراقتدار بی جے پی کی شکست فاش تک نئے قانون شہریت اور حکومتی فیصلوں پر ایک انچ نہ ہٹنے کی بات کررہے تھے، اور اب یکایک ان کا لہجہ نرم پڑگیا ہے؟
عوام اور حکمراں قائدین کے ”آئی کیو“ (انٹلیجنس کوشنٹ) میں بہت نمایاں فرق ہوتا ہے۔ میں مانتا ہوں، این پی آر پر امیت شاہ کے تازہ بیان بہت بڑی تعداد میں عام طبقہ کے مسلمانوں کو مطمئن کردیا ہے۔ وہ اب یکم اپریل سے سنسیس (مردم شماری 2021) کے پہلے مرحلے کے ساتھ این پی آر کا فارم بھی بھرنے پر مائل دکھائی دینے لگے ہیں۔ تاہم، جہاں تک میری معلومات اور میرے موقف کا معاملہ ہے، میرے لئے حکومت کے بیان سے کچھ نہیں بدلا ہے۔
میں این پی آر اور پھر سوائے آسام این آر سی کو سرے سے فضول خرچ اور گھناونے سیاسی عزائم کی تکمیل والی سرگرمی سمجھتا ہوں۔ میرا موقف دستورِ ہند پر مبنی ہے۔ اگر کوئی مجھے دستور کی مطابقت میں این پی آر اور مستقبل میں کسی وقت ملک گیر این آر سی کو حق بجانب سمجھا دے تو میرا خود سے وعدہ ہے کہ میں جس طرح اس کی مخالفت کررہا ہوں، اسی طرح حمایت بھی کروں گا۔ سی اے اے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کون ہے جو اسے دستورِ ہند کی نظر میں غیرمتعصبانہ قانون ثابت کرسکتا ہے؟
مودی۔ شاہ حکومت کو 2010 میں این پی آر پر عمل کا اچھا نکتہ مل گیا ہے۔ وہ بار بار دہرا رہے ہیں کہ یہ تو وزیراعظم منموہن سنگھ کی کانگریس زیرقیادت یو پی اے سرکار نے شروع کیا تھا۔ وہ اس بات کو عوام سے چھپانا چاہتے ہیں کہ اس کی قانون سازی تو 2003 میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے شروع کی تھی۔ واجپائی حکومت کو اس پر عمل درآمد کا موقع نہیں مل سکا۔ 2008 کے ممبئی حملے کے بعد بدلے ہوئے حالات میں ڈاکٹر سنگھ حکومت نے واجپائی سرکار کے منصوبہ بند این پی آر کو 2009 میں شروع کردہ آدھار کارڈ کے تناظر میں نرم بناتے ہوئے 2010 میں عمل آوری کی۔
میری رائے میں کانگریس زیرقیادت یو پی اے حکومت نے غلطی کی، کیونکہ اسی غلطی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مودی حکومت نے پہلی میعاد کے ایک سال بعد 2015 میں این پی آر کو آدھار ڈیٹا کے ساتھ لنک کرتے ہوئے اَپ ڈیٹ کیا ، اور اب مزید پانچ سال گزرتے ہی اسے 139 سال سے جاری سنسیس کے ساتھ ملا کر ہندوستانی عوام کو ’بے وقوف‘ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ اروند کجریوال کی دہلی حکومت نے جمعہ کو ریاستی اسمبلی میں این پی آر، این آر سی کیخلاف قرارداد منظور کرتے ہوئے میرے موقف کی توثیق کی ہے۔ اب دیکھنا ہے خود میری آبائی ریاست تلنگانہ میں کیا ہوتا ہے؟
٭٭٭