مہاراشٹرا، بی جے پی کے ہاتھ سے نکل گیا؟

Jabri Irfan

مہاراشٹرا میں اتوار کو گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے شیوسینا کو دعوت دی کہ ریاست میں تشکیل حکومت کیلئے ”آمادگی اور قابلیت“ کا اشارہ دیں کیوں کہ بی جے پی نے کہہ دیا ہے کہ وہ اقتدار کیلئے اپنی دعوے داری پیش نہیں کرے گی۔ اس کے فوری بعد شیوسینا نے مرکز کی مودی حکومت میں شامل اپنے وزیر اروند ساونت کو وزارت سے ہٹا لیا ہے۔ یہ مہاراشٹرا کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلی ہے اور واضح اشارہ ہے کہ ادھو ٹھاکرے زیرقیادت پارٹی نے ریاستی سیاست میں بہت بڑا الٹ پھیر کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔

ریاستی اسمبلی کیلئے انتخابات کے نتائج کا 24 اکٹوبر کو اعلان ہونے کے بعد سے سینا نے اپنے تیور دکھانا شروع کردیئے تھے۔ وہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ لوک سبھا الیکشن منعقدہ اپریل مئی میں بی جے پی قیادت نے سینا سے اسمبلی چناو کے بعد اقتدار میں مساوی شراکت داری کا وعدہ کیا تھا۔ اب بی جے پی اس کی تردید کررہی ہے مگر سینا نہ صرف اپنے موقف پر اٹل ہے بلکہ بی جے پی۔ شیوسینا حکومت کی تشکیل کی صورت میں وہ تحریری معاملت کے ساتھ 2.5 سال کیلئے چیف منسٹر کا عہدہ بھی چاہتی ہے۔ یہ بی جے پی قیادت کو ہرگز قبول نہیں۔ یہیں سے بات بگڑ گئی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔

شیوسینا کی طرف سے اس مرتبہ پہلی ٹھاکرے فیملی کے ممبر کو انتخابی میدان میں اتارا گیا، اور ادھو کے فرزند آدتیہ ٹھاکرے ریاستی اسمبلی کیلئے منتخب ہوچکے ہیں۔ آدتیہ یوتھ سینا کے لیڈر ہیں اور حرکیاتی نوجوان سمجھے جاتے ہیں۔ ادھو ٹھاکرے نے ابھی تک اپنی زعفرانی حلیف بی جے پی کے ساتھ اس قدر کٹر موقف اختیار نہیں کیا تھا، حالانکہ نظریاتی طور پر وہ بی جے پی کی حقیقی حلیف رہی ہے۔ فی الحال واضح نہیں کہ سینا کی سیاست میں یکایک ڈھیٹ پن کیونکر آگیا ہے؟ آدتیہ ٹھاکرے کا عملی سیاست میں داخلہ تو اس کی وجہ نہیں؟

بہرحال، باضابطہ گورنر کی طرف سے شیوسینا کو تشکیل حکومت کے ضمن میں مدعو کئے جانے پر ریاستی سیاست میں بھونچال آگیا ہے، جہاں کانگریس اور شردپوار کی این سی پی کے بغیر شیوسینا حکومت بننا ممکن نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ دو مختلف نظریات کا مجبوری میں سہی مگر ملن ہونے والا ہے۔ فوری دوبارہ انتخابات کوئی پارٹی نہیں چاہتی۔ کانگریس نے واضح کردیا ہے کہ ریاست میں صدر راج کا نفاذ بھی ٹالا جائے گا۔ این سی پی نے ملے جلے اشارے دیئے ہیں۔ شردپوار دہلی جاکر سونیا گاندھی سے مل چکے ہیں۔ اور پردیش کانگریس کی قیادت کو اپنے ہائی کمان کے موقف سے اختلاف نظر نہیں آتا ہے۔ 

عین ممکن ہے کہ شیوسینا سردست بی جے پی سے پوری طرح ناطہ توڑ لینے کے بعد گورنر سے رجوع ہوگی اور تشکیل حکومت کا دعویٰ پیش کرے گی۔ اسے کانگریس کی باہر سے تائید تو طے ہے، البتہ این سی پی کی حکومت میں شراکت ممکن ہے، یا پھر وہ بھی نئی حکومت کی باہر سے تائید کرسکتی ہے۔ تاہم، کانگریس و این سی پی نہیں چاہیں گے کہ صرف سینا ہی اقتدار کے مزے لوٹیں اور وہ حکومت سے باہر بیٹھ کر صرف تماشہ دیکھیں۔ وہ ضرور چاہیں گے کہ دونوں میں سے ترجیحی طور پر این سی پی نئی حکومت کا حصہ بن کر سینا حکومت کے اقدامات پر اندر سے نظر رکھ سکے۔ خیر یہ سب تو ضمنی باتیں ہیں۔ ادھو ٹھاکرے کا یہ خواب پورا ہوتا نظر آرہا ہے کہ اس مرتبہ چیف منسٹر مہاراشٹرا ، شیوسینا سے ضرور ہوگا۔
٭٭٭

Find Out More:

Related Articles: