٭٭٭ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے ٭٭٭ کانگریس و دیگر اپوزیشن پارٹیوں کیلئے کھلا خط

Jabri Irfan

یہ تحریر مہاراشٹرا و ہریانہ اسمبلی الیکشن کے ساتھ انڈیا کی 22 ریاستوں میں پھیلے ہوئے 51 اسمبلی اور 2 لوک سبھا حلقوں کے ضمنی انتخابات کے جمعرات کو معلنہ نتائج کے پس منظر میں ہے۔ یہ تحریر میری مادری زبان اُردو میں ہے، جسے غیروں سے کیا گلہ کریں، افسوس کہ خود اپنوں میں سے زیادہ تر نے ترک کر رکھا ہے۔ ویسے میں تھوڑی کوشش کروں تو یہی تحریر اوپر والے کے فضل سے انگریزی میں بھی پیش کرسکتا ہوں۔ تاہم، میں نے دانستہ مادری زبان میں اپنے ما فی الضمیر کا اظہار بہتر سمجھا۔ اب چاہے، یہ کھلا خط کانگریس اور ملک کی دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت کے علم میں آئے، یا کسی بھی واسطے سے علم میں لایا جائے، یا پھر میرے چند بہی خواہوں ناقدین کی نظروں سے گزرتے ہوئے ماضی میں کہیں گم ہوجائے، مجھے فی الحال اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔

قارئین کرام نے محاورہ ” لوہا لوہے کو کاٹتا ہے “ سنا پڑھا ہوگا یا کبھی خود استعمال کیا ہوگا۔ میں نے بطور پروفیشنل جرنلسٹ گزشتہ روز انتخابی نتائج پر کام کرتے ہوئے وزیراعظم مودی اور بی جے پی کے تاثرات و بیانات سے جانا کہ ان کی دانست میں 21 ویں صدی کی عملی سیاست کس طرح ہونی چاہئے؟ انتخابی نتائج پر برسراقتدار پارٹی کو جھٹکہ لگنے یا معلق مقننہ وجود میں آنے کے بعد کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے؟ ’ہارس ٹریڈنگ‘ (سیاسی جوڑ توڑ) کی غیردستوری و غیرقانونی حرکتوں کو ’تفریح‘ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ وغیرہ، وغیرہ۔ ’وزیراعظم بی جے پی‘ کو شاید ایک اور دورہ سعودی عرب کی تیاری کرنا ، یا کوئی دیگر اہم کام میں مصروف ہونا تھا، اسی لئے انھوں نے مہاراشٹرا و ہریانہ کے اسمبلی الیکشن نیز ضمنی انتخابات کے پورے نتائج کے اعلان تک ’صبر‘ کرنا ضروری نہیں سمجھا اور قوم کو اطلاع دی کہ 21 اکٹوبر کی پولنگ میں ووٹروں نے بی جے پی پر اعتماد کا اعادہ کیا ہے۔ میں کچھ دیر کے لیے سوچ میں پڑگیا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا جو نتائج کا اعلان کررہا ہے، وہ درست ہیں یا مودی جی کے ڈھٹائی سے کئے گئے دعوے پر یقین کیا جائے؟

دو دہوں سے زیادہ عرصے پر محیط میرے صحافتی تجربے اور ووٹر کی حیثیت سے زائد از تین دہوں کے مشاہدے کے تناظر میں مجھے محسوس ہوا کہ مہاراشٹرا کا نتیجہ تقریباً دو سال قبل گجرات اسمبلی الیکشن سے مشابہت رکھتا ہے؛ ہریانہ کی معلق اسمبلی نے گزشتہ سال کرناٹک اسمبلی کے انتخابی نتائج کو تازہ کردیا ہے۔ گجرات اسمبلی الیکشن 2017 میں صدر بی جے پی امیت شاہ کے بلند بانگ دعوے اور محض ریاستی چناو میں راہول گاندھی کی انتخابی مہم کے مقابل لگ بھگ پوری مرکزی کابینہ کو جھونک دینے کے باوجود بی جے پی بڑی مشکل سے اقتدار بچا پائی؛ نتائج کا اعلان ہونے پر اپوزیشن مطمئن ہوگئی کہ بی جے پی کی عددی طاقت دو دہوں میں پہلی مرتبہ 100 سے نیچے آگئی۔ انھیں سمجھ نہ آیا کہ اب ’سیاسی اخلاقیات‘ کی پاسداری کا دور نہیں ہے۔ کرناٹک اسمبلی الیکشن 2018 میں عوام نے معلق نتیجہ دیا۔ برسراقتدار کانگریس کو خط ِ اعتماد میں واضح کمی ہوئی لیکن بی جے پی کو بھی تشکیل حکومت کیلئے درکار عددی طاقت نہیں ملی۔ پھر بھی یدی یورپا نے ریاستی گورنر اور ’مرکزی آشیرواد‘ کی مدد سے ایک بار پھر بی جے پی حکومت بنانی چاہی، جس میں وہ ناکام ہوئے۔ بعدازاں، شاید کانگریس کی کسی ریاست کی انتخابی سیاست کی تاریخ میں پہلی مرتبہ راہول نے اپنے پارٹی رفقاءسے مشاورت کے بعد جے ڈی (ایس) کے کمارا سوامی کو چیف منسٹر بنایا تاکہ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھا جاسکے۔ اس طرح کا کام 1990 میں راجیو گاندھی نے قومی سطح پر انجام دیتے ہوئے چندرشیکھر کو وزیراعظم کے منصب تک پہنچایا تھا۔ 

آج مہاراشٹرا اور ہریانہ میں حالات بڑی حد تک مشابہ ہیں۔ ’ سکیولر ‘ کی اصطلاح کو کانگریس کے لیے اب خیرباد کہنے کا وقت آگیا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اس کی آڑ میں 1947 سے کانگریسیوں نے 1992ءتک اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو بے وقوف بنایا اور ’اپنا الو سیدھا کیا‘۔ دنیا کی حد تک دیکھیں تو ہر چیز اور ہر نظریہ کی افادیت کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر اسے موثر باور کرایا جائے تو نقصان ہوسکتا ہے۔ مہاراشٹرا میں شیو سینا اور بی جے پی نے 2014 میں اختلافات کے سبب چناو علحدہ لڑے تھے، ایک ماہ بعد ادھو ٹھاکرے کی پارٹی نے دیویندر فڈنویس زیرقیادت بی جے پی حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس مرتبہ اگرچہ دونوں پارٹیوں نے مل کر الیکشن لڑا، لیکن نتائج کے روز ہی ٹھاکرے نے ریاستی اقتدار میں شراکت کو 50 ۔ 50 فارمولے پر مرکوز رکھنے کی یاددہانی کے ذریعے بی جے پی پر دباو ڈالا ہے۔ بی جے پی کو اسی کے طرزعمل کے ذریعے سبق سکھانا مقصود ہو تو کانگریس اور این سی پی کو چاہئے کہ شیوسینا کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش کرتے ہوئے زعفرانی اتحاد سے توڑنے کی کوشش کریں، تاکہ زعفرانی جماعت کو اقتدار سے دور رکھا جاسکے۔ اس میں کچھ ’قباحت‘ نہیں، کیونکہ گوا، منی پور جیسی ریاستوں اور راجیہ سبھا میں حصولِ اکثریت کے لیے خود بی جے پی نے یہی ’ سیاسی ہتھکنڈے ‘ استعمال کرتے ہوئے اسے حق بجانب ٹہرایا، اور اپوزیشن کے اعتراضات کو مسترد کیا ہے۔ ہریانہ کا معاملہ اپوزیشن کانگریس کے لیے نسبتاً سہل ہے۔ وہ جلد از جلد نئی مقامی پارٹی (جے جے پی) کے لیڈر اور چوٹالہ فیملی کے سپوت دشینت چوٹالہ کو باضابطہ پیشکش کریں کہ اگر وہ اتحاد کرتے ہیں تو انھیں چیف منسٹر کا منصب دیا جائے گا۔ وہاں، بی جے پی کی اقتدار پر برقراری کو روکنا ہو تو کانگریس کو کرناٹک و کمارا سوامی کے فارمولے پر عمل کرنا ہی ہوگا۔ اگر کانگریس ایسی کوششیں نہیں کرتی ہے تو دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں: قدیم سیاسی جماعت نے بدلتے دور سے کچھ نہیں سیکھا، یا پھر ’ دال میں کچھ کالا ہے‘۔

بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے کو ضمنی چناو کے نتائج میں بھی قابل لحاظ جھٹکہ لگا ہے۔ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کو فائدہ ہوا، جس میں ایس پی رکن لوک سبھا محمد اعظم خان کی اہلیہ تنزین فاطمہ کی حلقہ اسمبلی رامپور سے کامیابی نمایاں ہے۔ گجرات میں کانگریس نے بی جے پی سے اسمبلی نشستیں چھینی ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوان دلت لیڈر الپیش ٹھاکر کو اچھا سبق ملا، جو کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد اپنی اسمبلی نشست ہار گئے۔ بہار میں آر جے ڈی کو لوک سبھا الیکشن کے بعد پہلی خوشی حاصل ہوئی اور چیف منسٹر نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی (یو) کو جھٹکہ لگا ہے۔ اسد الدین اویسی زیرقیادت مجلس کا بہار اسمبلی میں مسلم اکثریتی حلقہ کشن گنج سے کامیابی کے ذریعے داخلہ ہوا ہے۔ اس طرح متحدہ آندھرا پردیش تلنگانہ کے باہر مہاراشٹرا کے بعد بہار مجلس کے لیے دوسری ریاست ہے جہاں مجلسی امیدوار اسمبلی لوک سبھا انتخابی مقابلے میں کامیاب ہوا ہے۔ تاہم، مہاراشٹرا میں مجلس کو دعوے کے مطابق نشستوں پر جیت حاصل نہیں ہوئی حالانکہ وہاں وہ برسوں سے بلدی اور اسمبلی انتخابات لڑتے آرہے ہیں۔ 288 رکنی مہاراشٹرا اسمبلی کے لیے درجنوں حلقوں میں مسابقت کرنے کی منطق کو حق بجانب ٹہرانا مجلسی قیادت کے لیے بہت مشکل ہے اور شاید ہی کوئی غیرجانبدار شخص اسے قبول کرے گا۔ متحدہ اے پی کے 294 اور تلنگانہ کے 119 اسمبلی حلقوں میں مجموعی طور پر اے آئی ایم آئی ایم نے اپنی تقریباً 60 سالہ انتخابی تاریخ میں درجنوں حلقے تو دور کی بات ہے، ریاستی دارالحکومت میں نئے شہر کے خیریت آباد، صنعت نگر، مشیرآباد، سکندرآباد وغیرہ، وغیرہ اسمبلی حلقوں میں تک کبھی انتخابی مسابقت نہیں کی، تو مہاراشٹرا میں ’فضول مسابقت‘ کے ذریعے ووٹوں کی تقسیم کا سبب بننا مشکوک کیوں نہ ہو؟ شاید ایسا ہے کہ 2014 سے ’نئی طرز کی عملی انتخابی سیاست‘ دیگر پارٹیوں کے مقابل ایم آئی ایم نے جلدی سیکھ لی ہے ۔ ( ہا ہا ہا)
٭

Find Out More:

Related Articles: