اقوام متحدہ میں مودی و عمران کا خطاب

Jabri Irfan

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں جمعہ کو ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم نریندر مودی اور عمران خان نے خطاب کیا۔ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی 5 اگست کو تنسیخ کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی کافی بڑھ گئی اور اس تناظر میں پہلی بار دونوں وزرائے اعظم ایک چھت تلے جمع ہوئے۔ وزیراعظم مودی نے جنرل اسمبلی سے اپنے 18 منٹ کے خطاب میں زیادہ ڈپلومیسی کا مظاہرہ کیا اور ایک بار بھی پاکستان کا نام لینے سے گریز کرتے ہوئے عمومی اصطلاحوں میں بات کی۔ اس کے برخلاف عمران خان نے انھیں اور ہندوستان کو کشمیر اور اقلیتوں پر مبینہ مظالم کا حوالہ دیتے ہوئے راست نشانہ بنایا۔

وزیراعظم مودی نے کہا کہ بھارت نے دنیا کو ”یودھا نہیں بودھا“ (جنگ نہیں امن) دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انسانیت کی خاطر دنیا کے لیے لازمی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف متحدہ ہوجائے اور اس لعنت کے خلاف یک جٹ ہوکر ڈٹ جائے۔ اپنی نسبتاً مختصر تقریر میں مودی نے پاکستان کا نام لئے بغیر عمومی اپیل کی کہ دہشت گردی کی لعنت سے لڑنا ضروری ہے۔ ”ہمارا ماننا ہے کہ یہ سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ہے، نہ صرف کسی ایک ملک کے لیے بلکہ ساری دنیا اور انسانیت کے لیے خطرہ ہے۔“ 

ہندوستانی وزیراعظم نے بڑی حد تک وسیع تر مسائل پر توجہ مرکوز کی جیسے آب و ہوا میں تبدیلی، قابل تجدید توانائی، انسداد غربت اور ہندوستان کی ترقی اور اس ضمن میں سیکھے گئے سبق جو وہ دیگر ملکوں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں بنیادی طور پر عوامی بہبود پر توجہ ہے جو عوامی شراکت داری کے ذریعے کی جاتی ہے اور یہ عوامی بہبود محض ہندوستان کے لیے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے ہے۔ 

تاہم، برصغیر کے دلدل سے اوپر اٹھ کر بات کرنے ہندوستانی وزیراعظم کی کوششوں کو ان کے پاکستانی ہم منصب عمران خان نے نظرانداز کردیا اور مودی کے خلاف پرجوش اور بار بار شخصی حملہ کیا، جس کا بعض مندوبین نے زبردست خیرمقدم کیا۔ عمران نے کہا کہ 9/11 کے بعد سے اسلاموفوبیا اور کٹر اسلام کی باتیں عام ہوگئی ہیں۔ اس کے ذریعے اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔ مسلم خواتین حجاب پہنتی ہیں تو ان سے خوف کیا جاتا ہے۔ ہر مذہب کی اپنی خاصیت ہے، اگر اس کو ڈراونا بنا کر پیش کیا جائے تو اس مذہب کے ماننے والوں کا ردعمل فطری امر ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نے کہا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی، ان کے بارے میں فلمسازی کو مسلمان ہرگز برداشت نہیں کرسکتے اور اسے اسلامی دہشت گردی قرار دینا صریح ناانصافی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر میں مسلمان محاصرہ بند ہیں، ان کے بنیادی حقوق چھینے جارہے ہیں، یہ رویہ ختم ہونا ضروری ہے۔

Find Out More:

Related Articles: