وزیراعظم نریندر مودی نے چہارشنبہ کو متھرا میں ایک تقریب کے موقع پر ملک کے موجودہ معاشی حالات میں غیرضروری متنازع بیان دیتے ہوئے مذہب کا سہارا لیا اور کہا کہ ملک میں بعض لوگوں کو ”اوم“ اور ”گائے“ کا نام سنتے ہی بے چینی شروع ہوجاتی ہے، ان کے بال کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 2014 سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کبھی مودی حکومت کو مشکلات پیش آئیں، اس کے سربراہ نے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے مذہب کا سہارا لیا۔ کبھی شمشان کہا، کبھی مندر کی بات کی، کبھی دیگر برادری کی خواتین کے مذہبی حقوق کا مسئلہ چھیڑا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا مودی صرف ہندو کمیونٹی کے وزیراعظم ہیں، یا سب سے بڑی مائنارٹی مسلمان اور دیگر اقلیتیں بھی اس ملک پر، اس کی حکومت پر، اس کے وزیراعظم پر اپنا حق جتا سکتے ہیں کہ نہیں؟ کیوں وہ بار بار اس طرح کا غیرذمہ دارانہ طرزعمل اختیار کرتے ہیں؟ اگر وہ خفیہ بی جے پی ایجنڈے اور آر ایس ایس کی دیرینہ خواہش ”ہندو راشٹر“ کی تکمیل چاہتے ہیں تو ملکی معیشت اور کروڑوں غیرہندو عوام کو فضول پریشانی میں ڈالے بغیر انھیں اور ان کی حکومت کو اپنے حقیقی عزائم کا کھل کر اظہار کرنا چاہئے۔ اس کے بعد جو کچھ عوام، منتخب نمائندے اور دستور چاہیں، وہی ہوگا۔
موجودہ طور پر مجموعی دیسی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح 5.0 فی صد ہوگئی ہے جو پاکستان، بنگلہ دیش حتیٰ کہ بھوٹان سے بھی کم ہے۔ نومبر 2016 میں ’نوٹ بندی‘ کے متنازع اقدام کے وقت یہ شرح 7.0 فی صد کے آس پاس تھی۔ سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے انتباہ دیا تھا کہ نوٹ بندی سے شرح ترقی میں دو ڈھائی سال میں 2 فی صد کی کمی ہوجائے گی۔ سرکاری اعداد و شمار کو پیش کرنے کے معاملے میں مودی حکومت کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا ہے۔ اس لئے 5.0 فی صد کی شرح ترقی بھی مشکوک معلوم ہورہی ہے۔
ماہرین معاشیات اقتصادی صورتحال پر سر پکڑے بیٹھے ہیں لیکن وزیر فینانس نرملا سیتارمن ’اولا‘ اور ’اوبر‘ کو کوس رہی ہیں کہ کیاب سرویس کلچر کی وجہ سے آٹوموبائل سیکٹر کو نقصان پہنچا ہے۔ کیسا احمقانہ تجزیہ ہے؟ نرملا نے ثبوت دے دیا کہ وہ معاشیات سے نابلد ہیں۔ مودی حکومت کی سابقہ میعاد میں وہ وزیر اطلاعات و نشریات رہیں، پھر یکایک انھیں وزارت دفاع سونپ دی گئی۔ اور اب مودی 2.0 میں ارون جیٹلی کی جگہ خالی ہونے پر انھیں فینانس کا قلمدان دے دیا گیا۔ معاشیات کے ساتھ کھلواڑ کا بھارت ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا جب کہ 2024 تک 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کی باتیں کی جارہی ہیں۔