مرکزی بجٹ 21۔ 2020 نے سوائے مودی حکومت اور اس کے ’اندھے حامیوں‘ ، باقی سب کو مایوس کیا ہے۔ نرملا سیتارامن نے گزشتہ روز لوک سبھا میں مودی۔شاہ حکومت کی نئی میعاد کا پہلا مکمل بجٹ پیش کیا۔ اس میں سب سے زیادہ محنت کچھ نظر آئی تو وہ طویل ترین بجٹ تقریر ہے جسے خود وزیر فینانس نہیں جھیل پائیں اور انھوں نے اپنی بجٹ تقریر کو مختصر کرتے ہوئے اختتام پذیر کردیا۔ میں اس بجٹ کو اس لئے مایوس کن کہہ رہا ہوں کیونکہ کلیدی مسائل برقرار ہیں اور اس طرف توجہ نہیں دی گئی ہے۔ ایسا معلوم ہورہا ہے کہ بجٹ میں ہر شعبہ کو کچھ نہ کچھ دینے کی کوشش میں سب کو ادھورا چھوڑ دیا گیا ہے۔
اپوزیشن تو لگ بھگ ہمیشہ بجٹ پر تنقید کرتا ہے۔ اس لئے غیرجانبدار گوشہ کا ردعمل دیکھتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ یا حصص بازار کا بجٹ تجاویز سے راست تعلق ہوتا ہے۔ جس روز بجٹ پیش ہوتا ہے، اسٹاک مارکیٹ میں تین قسم کے ردعمل دیکھنے میں آتے ہیں۔ انڈسٹری اور تاجر طبقہ اگر خوش ہیں تو اسٹاک مارکیٹ میں اچھال آتا ہے، اگر خوش نہیں تو گراوٹ آتی ہے اور درمیانی معاملہ ہو تو حصص بازار میں کچھ خاص تغیر دیکھنے میں نہیں آتا۔ اس مرتبہ بجٹ کی پیشکشی کے ساتھ ہی بامبے اسٹاک ایکس چینج (بی ایس ای) تقریباً 1,000 پوائنٹس کی زبردست گراوٹ آئی۔ 30 مختلف شیئرس والے بی ایس ای میں اس طرح کی تنزلی شاذونادر دیکھنے میں آتی ہے اور ایک دہے بعد ایسا ہوا ہے۔ 50 مختلف شیئرس والے نیشنل اسٹاک ایکس چینج (این ایس ای) ال معروف نفٹی میں بھی کچھ اسی طرح کی گراوٹ آئی۔
وزیراعظم مودی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ بجٹ میں ویژن اور ایکشن ہے۔ غیرمعمولی بڑھی ہوئی بے روزگاری برقرار ہے۔ خود ان کی زائد از تین سال قبل مسلط کردہ نوٹ بندی کے نتیجے میں روزگار سے محروم ہونے والے لاکھوں افراد کا کچھ نہیں ہوا۔ 2014 سے قبل بھی بے روزگاری تھی جسے دور کرنے کیلئے مودی نے ہر سال دو کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا بی جے پی کے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا۔ اگلی میعاد کے آتے آتے وہ وعدہ منشور سے مٹا دیا گیا کیونکہ روزگار پیدا کرنا اس حکومت کے بس میں نہیں۔ نتیجتاً 45 سال میں بے روزگاری کی سب سے زیادہ شرح ہوگئی ہے۔ بجٹ میں چند لاکھ روزگار پیدا کرنے کی تجویز ہے جبکہ بے روزگاری کروڑوں میں پہنچ گئی ہے۔ اس بجٹ میں پانچ اشیاءسستی ہونے کی توقع ہے جبکہ پانچ درجن اشیاءکو مہنگی کرنے کی تجویز ہے۔ کیا یہی بجٹ کا ویژن اور ایکشن ہے؟
اس بجٹ کا سب سے نمایاں پہلو متوسط طبقہ کیلئے انکم ٹیکس سے استثنا کی بالائی حد کو دوگنا کرتے ہوئے پانچ لاکھ روپئے کردینے کی تجویز ہے۔ بلاشبہ اس سے مجھے بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ سارا ہندوستان صرف متوسط طبقہ کا نام نہیں ہے۔ متوسط طبقہ کیلئے پانچ لاکھ کو تین لاکھ کرتے تو کوئی ہنگامہ نہیں ہوتا مگر یہ دیکھیں کہ زرعی اور کسانوں کے مسائل جوں کے توں برقرار ہیں۔ ملک کے متعدد حصوں میں کسان خودکشی کررہے ہیں کیونکہ انھیں اقل ترین امدادی قیمت (ایم ایس پی) سے کم اجرت مل رہی ہے۔ چنانچہ وہ قرضوں میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ کچھ حوصلہ مند کسان کاشتکاری چھوڑ کر ٹاونس اور شہروں کا رخ کررہے ہیں جو ہندوستان جیسے بنیادی طور پر زراعت پیشہ ملک کیلئے ہرگز اچھی تبدیلی نہیں ہے۔ اس سے نہ صرف کاشتکاری پر اثر پڑے گا بلکہ ٹاونس اور شہروں کا آبادیاتی اور وسائل سے استفادہ کا توازن بھی بگڑے گا۔
گڈز اینڈ سرویسیس ٹیکس (جی ایس ٹی) جولائی 2017 سے لاگو کیا گیا۔ اس میں تب کے وزیر فینانس ارون جیٹلی اور وزیراعظم نے جلدبازی کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نئے ٹیکس سسٹم میں کئی نقائص رہ گئے جو آج تک پوری طرح دور نہیں ہوئے ہیں۔ اس سے تاجر برادری میں ایسی ناراضگی پھیلی کہ خود مودی کی آبائی ریاست گجرات کے مشہور تجارتی شہر سورت میں جی ایس ٹی کیخلاف احتجاج ہوا۔ وہاں ریاستی حکومت بی جے پی کی ہے اور مرکز میں بھی بی جے پی حکمرانی۔ چنانچہ کسی طرح اپنے انتخابی حامیوں کے حلقوں میں ناراضگی کو دبا دیا گیا۔ لیکن اس طرح حقائق کو دبانے سے کیا ہوتا ہے؟ مسئلہ تو برقرار رہتا ہے۔ آج بھی جی ایس ٹی سے بزنسمین کمیونٹی پریشان ہے۔
مختصر یہ کہ نئے مرکزی بجٹ نے ڈیفنس اور ریلوے سے لے کر تعلیم اور کسانوں تک زندگی کے ہر شعبے کو چھیڑا ضرور ہے لیکن کسی کے بھی مسائل حل نہیں کئے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ آپ کے پاس دس مسائل ہیں اور وسائل اتنے دستیاب ہیں کہ چار مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ تب میرا عمل دو طرح کا ہوسکتا ہے ۔ اول یہ کہ چار مسائل کو حل کرلیا جائے اور ایک سال بعد کم از کم اتنے ہی یا بقیہ مسائل کی یکسوئی کے وسائل اکٹھا کئے جاسکتے ہیں۔ دوم یہ کہ کم از کم دو مسائل تو پوری طرح حل کردیئے جائیں اور بقیہ دو مسائل کی یکسوئی کیلئے دستیاب وسائل کو ایک سال کیلئے آٹھ مسائل پر کچھ کچھ خرچ کیا جائے۔ مودی حکومت اور نرملا سیتارامن کے بجٹ نے ایسا کچھ اختراعی اقدام بھی نہیں کیا ہے۔ اس لئے یہ بجٹ سراسر مایوس کن ہے۔
٭٭٭
Find Out More: