غربت اور مذہب کیلئے کم از کم 2 فیصد آمدنی خرچ کرنیکی ضرورت

Jabri Irfan


ایک معتبر ادارہ کی رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ انڈیا میں محض 63 امیر ترین افراد کی مجموعی دولت ملک کے بجٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ 130 کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک میں یہ کس قدر بھیانک تفاوت ہے۔ برسہابرس سے ہم سنتے اور کہتے آئے ہیں کہ ہندوستان میں امیر کی امیری بڑھتی جارہی ہے اور غریب کی غریبی میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ فطری نظام کے بالکلیہ خلاف ہے۔ اس طرح سماج میں بے شمار برائیاں پیدا ہوتی ہیں جو عملی طور پر ہم سب کو نظر آرہا ہے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ اپنے خالق کا فطری نظام حیات اپنائے، ورنہ وہ پریشانیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا ہی رہے گا۔

 

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو استطاعت کی کسوٹی کی شرط کے ساتھ اپنی مخصوص دولت کاسالانہ چالیسواں حصہ یا 2.5 فیصد بطور زکوٰة اپنے مستحق رشتے داروں، غریبوں وغیرہ کو دینا فرض کردیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بعد اوپر والے نے امیروں کو اپنی دولت عیش و عشرت میں اڑا دینے کی اجازت دے دی ہے۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ قرآن مجید میں سورہ نمبر 2 (البقرہ) کی ابتدائی پانچ آیتوں میں خالق کائنات نے غیب پر ایمان لانے والوں کیلئے نماز کی ادائیگی کی فرضیت واضح کردی اور یہ بھی بتا دیا کہ جو کچھ انھیں اوپر والے نے دیا ہے، اس میں سے خرچ کرنے والے ہی حقیقی کامیابی پانے والے ہیں۔ ظاہر ہے جسے اوپر والے نے کچھ معقول دے رکھا ہے تو وہ مستحقین اور غریبوں پر ہی خرچ کرے گا۔

 

اس طرح خرچ کرنے والوں کو ”ینفقون“ کہا گیا جس کی اساس ”انفاق“ ہے۔ زکوٰة کیلئے مخصوص مقدار مقرر کی گئی ہے لیکن انفاق محدود نہیں ہے۔ بندہ جس قدر نیکی کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، غربت کے انسداد کیلئے خرچ کرنے کا اب سے بہتر وقت شاید کبھی نہیں آیا۔ مستقبل کا کون جانے؟ آج کئی افریقی ملکوں میں قابل رحم غربت ہے، کئی جنوبی امریکی ممالک بھی غربت سے متاثرہ ہیں، ایشیا کے متعدد ملکوں میں بھی حالات خراب ہیں۔ برصغیر میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش غربت کے خلاف سخت جدوجہد کررہے ہیں۔

 

امیروں کو تو بہت فراخ دلی سے سماج کی مدد کرنا ہی چاہئے لیکن میری تجویز ہے کہ اس معاملے میں ہر مسلمان بلکہ ہر انسان اپنی بساط کے مطابق حصہ لے سکتا ہے۔ اگر آدمی 1 فیصد آمدنی اپنے آس پاس کے غریبوں کو دے اور 1 فیصد آمدنی مذہب کی خاطر خرچ کرے تو سوسائٹی میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ میں اپنی تین دہوں پر مشتمل عملی زندگی کے تجربے کی بنا کہہ سکتا ہوں کہ عام طور پر آدمی اپنی آمدنی کا 10 سے 15 فیصد تک ماہانہ بچت کرتا ہے۔ بقیہ 85 فیصد میں سے صرف 2 فیصد اگر غریبوں اور مذہب کی خدمت کیلئے خرچ کرے تو اس کا بجٹ متزلزل نہیں ہوگا، بلکہ جو دعائیں اور نیکی اسے ملیں گے وہ اس کو اِس دنیا میں اور اس کے بعد بھی یقینا کام میں آئیں گے۔ 

 

ایسا نہیں کہ یہ کام صرف مسلمانوں کیلئے فائدہ مند ہے بلکہ اس زمین پر موجودہ ہر انسان جو اپنی اور فیملی کی بنیادی ضرورتوں سے کچھ بھی زیادہ کمائے، وہ بھی اس سے کم از کم اِس دنیا میں فائدہ ضرور اٹھا سکتا ہے۔ آج دنیا میں غیرمسلم انسانیت نواز اور رحم دل شخصیتوں کی کمی نہیں ہے جو کروڑہا روپئے فلاحی خدمات کیلئے وقف کرچکے ہیں اور اس کے علاوہ لگاتار انسانیت کی خدمت میں جٹے رہتے ہیں۔ کاش! ہم سب کو توفیق ہوجائے کہ ہم اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کم از کم 2 فیصد آمدنی غریبوں کیلئے اور مذہبی خدمت کی خاطر خرچ کرنے لگیں۔
٭٭٭

Find Out More:

Related Articles: