جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ سے متعلق آرٹیکل 370 کی دفعات کو وزیراعظم مودی کی حکومت نے منسوخ کردیا بلکہ اس سرحدی ریاست کو مرکزی علاقہ بنا دیا اور 5 اگست سے وادی کشمیر میں عوام اور سیاسی قائدین نیز ورکرس کے امکانی شدید ردعمل کو محسوس کرتے ہوئے وہاں مختلف نوعیت کی تحدیدات عائد کردیئے۔ تب سے وہاں غیرمعلنہ کرفیو نافذ ہے جب کہ حکومت اس کی تردید کرتی آئی ہے۔ تاہم، اس کا اعتراف ہے کہ موبائل اور انٹرنٹ سرویس معطل کردی گئی ہے جس نے ملک کی مختلف ریاستوں میں زیرتعلیم کشمیری اسٹوڈنٹس کو اپنے متعلقین سے بے ربط کردیا ہے۔
اس دوران بعض سیاسی قائدین اور کئی جہدکاروں نے وادی کشمیر کا دورہ کیا اور وہاں کے حالات کا جائزہ لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ زمینی صورتحال کافی خراب ہے۔ کشمیری لوگ بہت بڑی تعداد میں تعینات فورسیس سے خائف ہیں اور جموں و کشمیر کے خصوصی درجہ کو ختم کرنے پر برہم بھی ہیں۔ کشمیری لوگ بازاروں میں اپنی دکانیں کھولنے اور معمول کا کاروبار کرنے تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھی نہیں بھیج رہے ہیں۔ ان کے لیے تو کرفیو کا ماحول ہوگیا ہے کہ بس گھروں تک محدود رہیں اور جو کچھ بھی گھر میں میسر ہو وہی کھائیں اور ارکان خاندان کو کھلائیں۔
اس سے زیادہ تشویش کا معاملہ لگ بھگ 50 دنوں میں 13 ہزار سے زیادہ بچوں اور نوجوانوں کا غائب ہوجانا ہے۔ اس تعلق سے حکام لب کشائی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نہ پولیس کو کچھ پتہ ہے، نہ فورسیس کو کچھ معلوم ہے، نا ہی ریاستی نظم و نسق کی طرف سے کوئی ذمہ داری لینے تیار ہے۔ جہدکاروں نے دورے کے بعد جو رپورٹ تیار کی، اس میں خاص طور پر کشمیری بچوں اور نوجوانوں کے غائب ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ واقعی سنگین معاملہ ہے۔ اس طرح شرپسند عناصر کشمیریوں کو اپاہج کرنا چاہتے ہیں۔
کشمیر کے معاملے میں بیرون اور اندرون ملک مسلمانوں کے رویہ پر افسوس ہوتا ہے بلکہ غصہ آرہا ہے۔ خلیجی ممالک تو وزیراعظم مودی کی مہمان نوازی اور ان کو اعزازات سے نوازنے میں مگن ہیں۔ یو اے ای نے تو 5 اگست کے چند روز بعد ہی مودی کو مدعو کرکے اپنا بڑا اعزاز عطا کیا۔ یہ تو ہے مسلم مملکتوں کی حس۔ درون ملک تو اور خراب معاملہ ہے۔ بیرون تو خیر بیرون ہی ہوتا ہے، اندرون رہنے والے تو کشمیریوں کی کچھ خیر خبر لیتے۔ ابھی تک کسی مسلم ایم پی نے حقیقی معنوں میں 5 اگست کے مرکزی حکومت کے اقدام پر اپنا احتجاج درج نہیں کرایا۔ احتجاج تو خیر چھوڑئیے، حکومت نے جو کرنا تھا کردیا۔ اب اپنی کمیونٹی کے زخموں پر مرہم تو لگایا جاسکتا ہے۔ وہاں جاکر حقیقت ِ حال جاننے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے۔ بڑی سے بڑی عدالت سے رجوع ہوسکتے ہیں جیسے محبوبہ مفتی کی بیٹی التجاءمفتی، غلام نبی آزاد، سیتا رام یچوری، ٹاملناڈو کے لیڈر وائیکو نے کشمیر ہی سے جڑے مختلف مقاصد کے لیے کیا ہے۔