نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (NIA) کو مزید اختیارات دینے کے لیے گزشتہ روز لوک سبھا میں ایک ترمیمی بل گرما گرم مباحث کے بعد منظور کرلیا گیا۔ ایوان میں پرچیوں کے ذریعہ رائے دہی میں بل کی تائید میں 278 اور مخالفت میں 66 ووٹ ڈالے گئے۔ مباحث میں تلخی اس لیے پیدا ہوئی کیوں کہ اپوزیشن کو قوی اندیشہ ہے کہ اب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) حکومت اس کا بے جا استعمال کرے گی۔ یہ قومی تحقیقاتی ادارہ 2008ءکے ممبئی دہشت گرد حملوں کے بعد قانون انسداد دہشت گردی (POTA) کو منسوخ کرتے ہوئے 2009ءمیں ڈاکٹر منموہن سنگھ زیرقیادت یو پی اے (یونائیٹیڈ پروگریسیو الائنس) حکومت نے تشکیل دیا تھا تاکہ دہشت گردی سے متعلق اُمور سے نمٹنے کے لیے قومی سطح کا کوئی خاص ادارہ ہو۔ ورنہ سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (CBI) تو مرکزی تحقیقاتی ادارہ کئی دہوں سے کام کررہا ہے۔
یہ بل انسانی اسمگلنگ کے علاوہ جعلی کرنسی یا بینک نوٹس، ممنوعہ اسلحہ کی تیاری یا فروخت، سائبر ٹیررازم اور قانون دھماکو مادہ جات 1908ءکے تحت آنے والے جرائم کی بھی تحقیقات کرنے کی اجازت چاہتا ہے۔ یہ بل ایوان بالا راجیہ سبھا میں بھی منظور ہوجائے تو قانون بن جائے گا۔ این آئی اے قانون کے ”بے جا‘ استعمال کے بارے میں اپوزیشن کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایوان کو یقین دلایا کہ مودی حکومت مذہب کی بنیاد پر اس کا کبھی غلط استعمال نہیں کرے گی بلکہ یقینی بنائے گی کہ دہشت گردی کو ملزم یا ملزمین کے مذہب سے قطع نظر ختم کردیا جائے۔ مملکتی وزیر داخلہ جی کشن ریڈی نے بھی اپوزیشن کو اسی طرح کا تیقن دیا ہے کہ این آئی اے قانون کا بے جا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’پوٹا‘ کی تنسیخ اور این آئی اے کی تشکیل کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے اسے زیادہ طاقتور بنانا ضروری ہے۔
یہ بل مرکزی حکومت کو مذکورہ بالا جرائم کے ٹرائل کے لیے اسپیشل کورٹس تشکیل دینے کا اختیار دیتا ہے۔ یہ ایکٹ ترمیم کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ مرکزی حکومت مخصوص جرائم کی صورت میں شنوائی کے لیے سیشنس کورٹس کو خصوصی عدالتوں کے طور پر نامزد کرسکتی ہے۔ مرکزی حکومت کو متعلقہ چیف جسٹس آف ہائی کورٹ سے مشاورت کرنا ہوگا جس کے تحت سیشنس کورٹ کام کررہی ہے، جس کے بعد اسے اسپیشل کورٹ کے طور پر نامزد کیا جاسکتا ہے۔ جب کسی علاقے کے لیے ایک سے زائد اسپیشل کورٹ نامزد ہوجائیں، تب سب سے سینئر جج عدالتوں میں کیسوں کو تقسیم کرے گا۔ مزید یہ کہ ریاستی حکومتیں بھی مصرحہ جرائم کے ٹرائل کے لیے سیشنس کورٹس کو اسپیشل کورٹس کے طور پر نامزد کرسکتی ہیں۔
اپوزیشن ہو کہ دیگر سیاسی و سماجی مبصرین، انھیں یہی اندیشہ ہے کہ این آئی اے کو کسی بھی مائنارٹی کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس میں حکومت کے سیاسی مفادات ہوسکتے ہیں، انتخابی مفادات ہوسکتے ہیں۔ بہرحال ایوان زیریں لوک سبھا میں منظورہ بل اگر آگے چل کر قانون بن جائے تو اس کی کوئی گیارنٹی نہیں کہ اسے اقلیتوں کے خلاف غلط طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔